Translate

منگل، 11 فروری، 2020

سندہ کے اندر تعلیمی ادارے دن بدن فیل اور وجوہات کیاہین ذرا پڑہٸے

سندہ حکومت اور تعلیم کی تباھی۔

سندہ صوبے کے اندر جو تعلیم کی تباہی کی گٸی ہے اسکا ذمہدار آخر کون ہے کیاسندہ کی صوبائی حکومت اس انتظار میں ہےکہ کہیں سے الادین کاچراغ کوٸی لاٸیگااور سارے صوبے کے اندر علم کی روشنی ھوجاٸگی یا یہ کہ یہاں پر صرف اسکول کہولنے ہیں باقی تعلیم ہو یا نہ اس سے سندہ حکومت کو کوٸی مطلب نہیں ۔
کراچی سے لیکر کشمور تک سندہ کےاندر تمام وہ اسکول جو جنگلات کے بیچ میں بنائے گٸے ہیں وہ صرف اور صرف پولنگ اسٹیشن کی سہولت اور دھاندلی کیلیے بنائے گۓہین نہ تووہان پرکوٸی ٹیچرتعلیم دینے آتا ہے اور نہ وہاں پر طلبہ پڑہتے ہیں اور ہرسال اسکول کے فرنيچر اور دوسرے کاموں کی مد میں حکومت سے فنڈ وصول کٸےجاتے ہین۔اسکے علاوہ اکثر اسکولوں مین نہ تو بجلی ہے۔نہ پینے کے پانی کی سہولت اور نہ بچوں کے پاس کتابيں سرکار کی طرف سے ہر سال بچوں کے لیے کتابيں تو آتی ہین لیکن کلاسز چلنے کے بعد بہت دنوں تک وہ کتابيں بچوں کو ملتی ہی نہین بلکہ ان افسران کے دفترون مین پڑی رہتی ہین جنہيں بانٹنے کیلیے دی جاتی ہین۔اور تین یا چار بچوں کو ایک ہی کتاب ملتی ہے ۔کثير تعداد ایسے اسکولوں کی اب بھی موجود ہے جوسال مین نہ کبهی کھلتے ہین نہ وہان پر کوٸی صوبائی یا ڈسٹرکٹ ایجوکيشن آفیسر نے کبهی بھی وزٹ کیا ہو۔کچھ عرصہ پہلے جب جج صاحبان نے اسکولوں کی وزٹ کی اور چھاپے مارے تھے تو اس وقت کچھ ایسے انپڑہ اور جاھل لوگوں کے نام منظر عام پر آگۓتہے جن کا کسی کو بھی علم نھین تھا کہ یہ بھی ٹیچر ہین یا ہیڈماسٹر ہین تو تب کچھ ایسے زبون حال اسکول بھی کھل گۓ تھے جو بننے سے لیکر زبون حالی تک کبھی نہین کھلےتھے لیکن ھر ماہ کروڑوں نہین اربوں روپے استاد تنخواہین لے رہے ہین۔اور جہان پر دس استادون کی ضرورت ہے وہان پر تین پڑھا رہے ہین اور جو اسکول سال مین ایک مرتبہ بھی نہین کھلتے اس اسکول مین بارہ استاد تنخواہ لیتے ہین ۔کافی تعداد ایسے استادون کی ہے جو اپنے علاقے کےوڈیرون کی نوکری کرتےہین تو کچھ اپنے سے بڑے افسران کے بچے سکول مین چھوڑنے اور گھر لے جانے کی ڈیوٹی انجام دیتے ہین اور تنخواہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ پر حکومت کے خزانے سے اے ٹی ایم کے ذریعے نکالنے آجاتےہین۔آج بھی دیہات مین تو تعلیم زیرو پر ہے لیکن شہروں مین بہی سرکاری اسکولوں ۔کالجوں کابرا حال ہے اور پہر بھی سندہ حکومت خاموش تماشائيوں کی طرح یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے ۔
جب سپرواٸیزر امتحان لینے آتے ہین تو وہ بھی آفس تک ہی محدود ہوتے ہین اور چاۓ پی کر واپس روانگی اختیارکرتےہین۔بڑی تعداد ایسے اسکولوں کی ہے جن مین نہ چٶدیواری ۔نہ ٹواٸلٹ۔نہ بجلی ۔نہ پنکھے۔نہ درخت ۔نہ ہی گارڈن اب ایجوکيشن ڈپارٹمینٹ کے تمام بالا افسران کسی نہ کسی ایم پی اے۔یا ایم این اے۔کے اسر رسوخ والے  ہوتے ہین اس صورتحال مین کیا تعلیم کی تباہی کا ذمہدار صوبائی حکومت نہین تو کون ہے ۔ہم معدبانہ گذارش کرتے ہین سندہ کے وزیراعلی سے اور وفاقی وزارت تعلیم سے کہ سندہ کے بچوں پر نظر کرم فرمائین اور اسکولوں اور کالجوں مین باقاعدہ تعلیم کے لیے تمام اداروں کو ریگیولر کرین۔اور جو اسکول برسوں سے بند پڑے ہین انہین ختم کرکے جہان زیادہ ضرورت ہے وہان نٸین اسکول کھولین۔اور جو اساتذہ پراپر ڈیوٹی نہین کررہے ان پر ایکشن لین۔
جبکہ کافی تعداد مین آج بھی ایسے استاد موجود ہین جو خود بھی پڑھنا لکھنا نہین جانتے حکومت وقت کو چاہيے کہ ایسے انپڑہ اور گوار عناصر کے خلاف انتہائی مٶثر اقدام لے ورنہ صوبے کے اندر ڈگری ھولڈر تو سٸنکڑون لوگ ہونگے لٸکن قابليت ڈھونڈنے سے بھی بہ مشکل ملے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں