Translate

منگل، 18 فروری، 2020

دینی مدارس اور اسکولوں کامعیار


گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت میں بھی مدارس کے اوپر شب خون مارا گیا۔
وجوہات یہ ہین۔اس حکومت مین بھی وہ ہی پرانا مٸچ فکس کیاگیاہے اب صرف کپتان چٸنج کیاگیاہے باقی پوری ٹیم پچهلے دٶر کی ہی ہے۔اس حکومت نے بھی اقتدار مین آتے ھی مدرسے کے اوپرپابندیاں لگانے کی پاليسياں بنائيں علمإ کو اور داڑھی پٹکے والوں کو انتہا پسند کرار دینے کی ناپاک کوششيں کی اور طلبہ کو حراسان کرنے کی بھی کوشش کی گٸی۔مدرسون کی تلاشی کے بہانے بناکر مدرسون کی توہين کی۔قادیانیون اور احمدیون کو خوش کرنے کےلٸے اسکولوں کے نصاب سے شعاٸراسلام کونکال دیاگیا اور اسلامیات اور عربی کے سبجیکٹ پڑہانے کے لٸے قادیانیون کو بطور عربی ٹیچر بھرتی کرنے کی بھی منظوری اس حکومت نے دی۔مدارس کے شیخ الحدیث اور خانقاھون کے بزرگوں کو اپنے ماتحت لانے کیلٸے ماہانہ وظیفے بھی مقرر کٸے گٸے۔مدارس کی رجسٹریشن کیلیے نٸین حکمت عملی کے بہانے قانون سازی کی سازش کی گٸی اور مدارس کے اندر پڑہاۓ جانے والے نصاب کو بند کرکے حکومت کی طرف سے نٸین نصاب کوپڑہانےکا زور بھی لگایا گیا۔علمإ کوبدنام کرنے کی تمام سرکاری کوششيں ناکام ھوچکی ھین۔اور اب نیا نام دیا گیاہے کہ مدرسہ قومی دھارے مین نہین ہے ۔حکمران یہ کہتے ہین کہ ہم مدارس کوقومی دھارےمین لانا چاہتے ہین تو ہم بھی برملا یہ مطالبہ حکمرانوں سے کرتے ہین کہ تم بھی اسلامی دھارے مین آجاٶ اور اسکولوں ۔کالجوں اور یونيورسٹيوں کوبہی اسلامی دھارے مین لاٶ اور اگر تم سچے ہوتو مدارس کے اندر اسکول کی تعلیم کیلیے استاد سرکاری طرف سے مقرر کرکے دو اور تمہارے اسکولوں کے اندر اسلامک سبجیکٹ وہ پڑہاتے ہین جو مدرسہ سے فارغ ہوکر آٸے ہین۔جب امتحان کاوقت آتا ہے تو تمہارے اسکولوں کے اندر کاپی کی مشینین لگی ھوتی ہین اور جب طلبہ ڈگری لیتے ہین تو روزگار نہین ملتا انہین ۔نوکری کا تو اسکیل کی بنیاد پر ریٹ لگتاہے۔کٸی انجنیٸروں اور ڈاکٹروں نے تو جاب نہ ملنے پر اپنی  زندگی کو موت کے حوالے کردیا۔کبھی ہاۓوے بلاک تو کبھی وزیراعلی ھاٶس کے سامنے احتجاج اور پہر لاٹھی چارج شیلنگ ربڑکی گولياں آنسو گٸس جیسے یہ مقبوضہ کشمیر ہے۔لٸکن اس کے برعکس اگر دیکھاجاۓ تو کبھی بھی کسی مدرسے کے استاد نے سرکار کیخلاف احتجاج نہین کیا کہ تنخواہ تین ھزار ہے گذارا نہین ہوتا ۔یا یہ کہ سرکاری نوکری نہین ہے ۔نہ ہی کبھی مدرسے کے طلبہ نے احتجاج کیاکہ ہمین نوکری دو نہ کبھی خودکشی کی نہ کبھی مدرسےکے اندر اسلحہ اٹھاکر لڑائی کی نہ کبھی مایوسی کو اپنے اردگرد ٹہھرنےدیا۔جب کسی کابچہ گھر مین روتاہے تو بہیجتے ہین مولوی کےپاس۔کسی کو دعائيں کرانی ھون تو اللہ والے عالم کےپاس جاتاہے جاٸز ناجائز حرام حلال پوچھناھوتوعالم کےپاس بھاگتےہین۔کبھی کسی نے غٸرمسلم پروفيسر ۔انجنیٸر یا ڈاکٹر سے نکاح یا نماز جنازہ پڑھاٸی ہے. نہین ۔کیون غٸر مسلم ھے تو کیا ہوا تعلیم تو بہت زیادہ ہے اسکےپاس۔اب آٸیگامولوی کے پاس کہ مٶلاناصاحب ابا وفات پاگیاہے نماز جنازہ تسان پڑھاٶ  ۔تمہارے کالجز اور یونيورسٹيوں مین مخلوط تعلیم روز مجرے ڈانسز اسلحہ لڑائی اور جھگڑے۔چرس ہیروٸن آفیم شیشہ حقہ سلفی شراب زنا اور آخری فنا۔اور مدارس مین قرآن و حدیث کی تعلیم نماز زکر اللہ پاک کا اور اس کے آخری رسول حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہر بھی کہتے ہو کہ مدرسہ قومی دہارے مین نھین ھے جب تم شراب کے نشے مین دہت ھوکر عیاشی کرتے ہو راتون کے اس پہر مین یہ طلبہ ۔علمإ اور صلحہ پاکستان اور پاکستانيوں سمیت پوری امت مسلمہ کےلیے اٹھ کر نماز ادا کرکے اللہ سے اپنی رحمت کا واسطہ دے کر امن امان اور ملک و ملت کی حفاظت مانگتے ہین اور استحکام معیشت مانگتے ہین۔جب ملک پر کوٸی کڑا وقت آجاتا ہے تو تم اپنے ہی ملکی اداروں کو بدنام کرتے ہو تب یہ ہی علمإ ملک کی حفاظت کے لیے دعائيں مانگنے کیساتھ حفاظت کرنےکااعلان بھی کرتےہین۔پھر بھی تم کہتے ہو کہ یہ قومی دہارے مین نہین ھین۔

منگل، 11 فروری، 2020

The destruction of Education & Sindh Government.


 Who is responsible for the destruction of education within Sindh province? Is the provincial government awaiting where the Aladdin lamp will bring anybody and the knowledge will shine within the entire province or that there are only schools open for further education.  Whether or not this has any meaning to the Sindh government. From Karachi to Kashmore, all the schools in Sindh those are built in the middle of the forest, and only for the convenience and rigging of the polling station, they do not come to teach anybody, nor do they teach students there or school furniture every year.  And other activities are funded by the government. Besides, most schools do not have electricity. There is no drinking water facility or books for children.every year from the government For many days after moving, he not only got the children's books but also stayed in the offices of the officers who  They are given for distribution - and three or four children get the same book. There are still a large number of schools that do not open year-round, nor are they visited by any provincial or district education officer.  Some time ago, when the judges visited schools and raided the names of some ignorant and ignorant people who were not even aware that they were teachers or headmasters.  Zubun Hal schools were also opened which never opened up to Zabun hal till now, but every month, tens of millions of tens of billions of teachers are being paid.  There are ten teachers in a school which never opened and the only three teacher in a school  where demands ten teachers who are teaching three and they do not open once a year in the school. Twelve teachers in a school take salaries.  Some teachers are on the duty of Children of officers older than themselves perform duty to leave school and take home, and salaries come out of the government's treasury at ATMs on the first date of each month.  Many public schools, colleges are still in place and yet the Sindh government is watching it all as silent spectators.  Every senior officer is taking bribes from his subordinates if the time for the exam comes, the copier also comes with his teacher. The enrollment fee is taken by the students. The teachers foolish the students by slipping up their own personal bank account.  It is supposed to be submitted to the government account. When supervisors come to take the exams, they are also confined to the office and have to return home after drinking the Cup of tea. There are a large number of schools that do not run - no toilets, no electricity, no fans, no trees - no garden.  All the top officers of the Education Department are somehow the MPAs or the MNAs. In this situation, who is not the provincial government responsible for the destruction of education. We earnestly request the Chief Minister of Sindh and  From the Federal Ministry of Education that all the institutions for regular education in schools and colleges are regulated by the children of Sindh.  collect data for those schools have closed over the years and where a greater need for open new schools .school teachers who are presumed proper take Action on those. While there are still a large number of teachers who do not even know how to read, the government should take the time to take effective measures against such illiterate and divergent elements, otherwise the degree holders within the province will be shrinking but even harder to find.  Will get

سندہ کے اندر تعلیمی ادارے دن بدن فیل اور وجوہات کیاہین ذرا پڑہٸے

سندہ حکومت اور تعلیم کی تباھی۔

سندہ صوبے کے اندر جو تعلیم کی تباہی کی گٸی ہے اسکا ذمہدار آخر کون ہے کیاسندہ کی صوبائی حکومت اس انتظار میں ہےکہ کہیں سے الادین کاچراغ کوٸی لاٸیگااور سارے صوبے کے اندر علم کی روشنی ھوجاٸگی یا یہ کہ یہاں پر صرف اسکول کہولنے ہیں باقی تعلیم ہو یا نہ اس سے سندہ حکومت کو کوٸی مطلب نہیں ۔
کراچی سے لیکر کشمور تک سندہ کےاندر تمام وہ اسکول جو جنگلات کے بیچ میں بنائے گٸے ہیں وہ صرف اور صرف پولنگ اسٹیشن کی سہولت اور دھاندلی کیلیے بنائے گۓہین نہ تووہان پرکوٸی ٹیچرتعلیم دینے آتا ہے اور نہ وہاں پر طلبہ پڑہتے ہیں اور ہرسال اسکول کے فرنيچر اور دوسرے کاموں کی مد میں حکومت سے فنڈ وصول کٸےجاتے ہین۔اسکے علاوہ اکثر اسکولوں مین نہ تو بجلی ہے۔نہ پینے کے پانی کی سہولت اور نہ بچوں کے پاس کتابيں سرکار کی طرف سے ہر سال بچوں کے لیے کتابيں تو آتی ہین لیکن کلاسز چلنے کے بعد بہت دنوں تک وہ کتابيں بچوں کو ملتی ہی نہین بلکہ ان افسران کے دفترون مین پڑی رہتی ہین جنہيں بانٹنے کیلیے دی جاتی ہین۔اور تین یا چار بچوں کو ایک ہی کتاب ملتی ہے ۔کثير تعداد ایسے اسکولوں کی اب بھی موجود ہے جوسال مین نہ کبهی کھلتے ہین نہ وہان پر کوٸی صوبائی یا ڈسٹرکٹ ایجوکيشن آفیسر نے کبهی بھی وزٹ کیا ہو۔کچھ عرصہ پہلے جب جج صاحبان نے اسکولوں کی وزٹ کی اور چھاپے مارے تھے تو اس وقت کچھ ایسے انپڑہ اور جاھل لوگوں کے نام منظر عام پر آگۓتہے جن کا کسی کو بھی علم نھین تھا کہ یہ بھی ٹیچر ہین یا ہیڈماسٹر ہین تو تب کچھ ایسے زبون حال اسکول بھی کھل گۓ تھے جو بننے سے لیکر زبون حالی تک کبھی نہین کھلےتھے لیکن ھر ماہ کروڑوں نہین اربوں روپے استاد تنخواہین لے رہے ہین۔اور جہان پر دس استادون کی ضرورت ہے وہان پر تین پڑھا رہے ہین اور جو اسکول سال مین ایک مرتبہ بھی نہین کھلتے اس اسکول مین بارہ استاد تنخواہ لیتے ہین ۔کافی تعداد ایسے استادون کی ہے جو اپنے علاقے کےوڈیرون کی نوکری کرتےہین تو کچھ اپنے سے بڑے افسران کے بچے سکول مین چھوڑنے اور گھر لے جانے کی ڈیوٹی انجام دیتے ہین اور تنخواہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ پر حکومت کے خزانے سے اے ٹی ایم کے ذریعے نکالنے آجاتےہین۔آج بھی دیہات مین تو تعلیم زیرو پر ہے لیکن شہروں مین بہی سرکاری اسکولوں ۔کالجوں کابرا حال ہے اور پہر بھی سندہ حکومت خاموش تماشائيوں کی طرح یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے ۔
جب سپرواٸیزر امتحان لینے آتے ہین تو وہ بھی آفس تک ہی محدود ہوتے ہین اور چاۓ پی کر واپس روانگی اختیارکرتےہین۔بڑی تعداد ایسے اسکولوں کی ہے جن مین نہ چٶدیواری ۔نہ ٹواٸلٹ۔نہ بجلی ۔نہ پنکھے۔نہ درخت ۔نہ ہی گارڈن اب ایجوکيشن ڈپارٹمینٹ کے تمام بالا افسران کسی نہ کسی ایم پی اے۔یا ایم این اے۔کے اسر رسوخ والے  ہوتے ہین اس صورتحال مین کیا تعلیم کی تباہی کا ذمہدار صوبائی حکومت نہین تو کون ہے ۔ہم معدبانہ گذارش کرتے ہین سندہ کے وزیراعلی سے اور وفاقی وزارت تعلیم سے کہ سندہ کے بچوں پر نظر کرم فرمائین اور اسکولوں اور کالجوں مین باقاعدہ تعلیم کے لیے تمام اداروں کو ریگیولر کرین۔اور جو اسکول برسوں سے بند پڑے ہین انہین ختم کرکے جہان زیادہ ضرورت ہے وہان نٸین اسکول کھولین۔اور جو اساتذہ پراپر ڈیوٹی نہین کررہے ان پر ایکشن لین۔
جبکہ کافی تعداد مین آج بھی ایسے استاد موجود ہین جو خود بھی پڑھنا لکھنا نہین جانتے حکومت وقت کو چاہيے کہ ایسے انپڑہ اور گوار عناصر کے خلاف انتہائی مٶثر اقدام لے ورنہ صوبے کے اندر ڈگری ھولڈر تو سٸنکڑون لوگ ہونگے لٸکن قابليت ڈھونڈنے سے بھی بہ مشکل ملے گی۔