Translate

جمعرات، 16 اپریل، 2020

حاکم کی تلوار مقدس ہوتی ہے۔حاکم کی تلوار کے بارے مت لکھو۔

ہم سے کہیں کچھ دوست ہمارے مت لکھو
جان  اگر  پیاری  ہے   پیارے  مت  لکھو
M.Hanif
Add caption

حاکم  کی   تلوار    مقدس    ہوتی    ہے
حاکم  کی  تلوار   کے بارے   مت   لکھو

کہتے  ہیں یہ دار  و  رسن کا موسم  ہے
جو بھی جس کی گردن مارے مت لکھو

لوگ  الہام  کو بھی الحاد سمجهتے  ہیں
جو  دل  پر  وجدان  اتارے   مت   لکھو

وہ لکھو بس  جو  بھی امیر  شہر   کہے 
جو  کہتے  ہیں  درد کے مارے مت لکھو

خود منصف  پابستہ  ہین لب بستہ ہیں
کون کہاں اب  عرض  گزارے,مت  لکھو

کچھ  اعزاز  رسیدہ  ہم  سے کہتے  ہیں
اپنی  بیاض  میں  نام  ہمارے مت لکھو

دل  کہتا  ہے کھل  کر  سچی  بات   کہو
اور  لفظوں  کے بیچ  ستارے  مت  لکھو۔
                     احمد فراز

ہفتہ، 14 مارچ، 2020

کورونا وائرس عام وائرس یا الله تعالی کی طرف سے عذاب


           چین سے اٹهنے والایہ خطرناک قسم کا ایک واٸرس جسے قابو مین لانا کسی کے بھی بس مین نہین لہذا اس سے بچنے کی تدابير اختیارکرنی چاہیین۔جس طرح ماسک پہننا۔پر ھجوم جگہوں پہ جانے سے پرہيز کرنا۔وغيرہ ۔
لیکن یہ واٸرس اٹهنے کی وجوہات کیا ھین اور پوری دنيا مین پہیلنے کی وجوہات کیا ھین۔
کچھ عرصے سے چین کے اندر مسلمانوں پر جو ظلم ھورھا ھے یہ کافی دوستوں کو شاید اب تک بھی علم نہین پر کافی لوگوں کو علم بھی ھوگا۔بہرحال چاٸنہ کے مسلمانوں کو نماز پڑھنے۔روزہ رکہنے۔قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور گھرون مین رکھنے کی اجازت نہین ہے۔اگر حکومت کو پتہ لگے کہ کسی کے گھر مین قرآن پاک یا مصلہ یعنی جاءنماز ہے تو پھر اس کی شامت آٸی قرآن پاک اور جإ نماز کو اسکے سامنے ھی پولیس والے آگ لگادیتے ہین اور رکھنے والے کو سخت سزا بھی دیتے ہین۔روزیدار کو زبردستی پکڑ کر اسے حرام چیزون شراب یا مردار جانورون کا گوشت کھلا پلا کر روزہ توڑنے کیساتھ اس کی تذلیل کرتے ہین اور روزے کی توحین کرتے ہین۔حتی کہ اب تو نام بھی مسلمانون کو اجازت نہین کہ وہ اسلامی نام رکھ سکھین۔اور مسلمان شادی شدہ عورتوں کی اور کنواری لڑکیون کی زبردستی چینی غیر مسلم لڑکوں کیساتھ شادی کراتے ھین۔اس کے علاوہ کافی ظلم کرتے ہین جیلون مین بند کرنا۔بھوکا پیاسا اور ننگا رکھنا وغيرہ ۔
         ان تمام ظلمون کے اوپر تمام دنيا کے ممالک خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے کسی نے کچھ نہ کہا۔پھر اللہ تعالی کی قدرت نے اپنا کام شروع کیا کہ انکو ایسے راستے پر چلتا کردیا کہ چاٸنیز غیرمسلم حرام تو پہلے ہی کہاتے تھے لیکن اس کورونا واٸرس سے پہلے جو کچھ کھارھے تھے وہ دنيا نے دیکھ لیاکہ کیسے وہ کتے ۔سانپ۔چوہے۔بلی۔گدھا۔اور کٸی حرام جانوروں کو کھارہے تھے یقينا یہ اسلام سے دشمنی کے نتيجے مین اللہ تعالی ان کو کھلا پلا رھاتھا اور ان حرام جانوروں کے کھانے کا آخری انجام اللہ تعالی نے کوروناواٸرس وبا کی صورت مین دیا دیکهتے دیکهتے ھی کتنے لاکھ لوگوں کو اس سے خوفزدہ ہوکر اپنے مکان اور شہروں تک کو خالی کرکے کٸمپون مین رہنے پر مجبور کردیا۔اللہ پاک کی لاٹھی بےآواز ہوتی ہے۔کتنے لوگ مرگٸے اور ھزارون اب بھی اس مرض مین مبتلا ہین۔اور کروڑوں چینی باشندوں پر موت کا راکاس بن کر یہ وائرس لپک جھپک رہی ہے اور پورے چین  کو کورونانے اپنی لپيٹ مین لیا ہوا ہے۔جہان چینی حکومت کےخوف سےتمام مساجد کو بند کرکے لاک کردیاگیاتھا وہاں اس وائرس کے خوف سےچائنہ کے صدر کو مسجد کے اندر کون لایا اور مسلمانوں کو اللہ پاک سے دعائيں مانگنے کیلیے صدر سے اپیل کس نے کرائی بیشک وہ میرا رب کعبہ ہی تھا۔جبکہ پوری دنيا کو اللہ تعالی نے چائنہ سے ہی اس واٸرس کو بھیج کر بتا دیاکہ تم مسلمانوں کیساتھ ھونے والے ظلم پر خاموشی اختیارکٸے ہو تو اب تم بھی جٸسے اس ظلم کرنے مین چاٸنہ کیساتھ دوست بنے بٸٹھے تھے تو اب سزا بھی اس چاٸنہ ہی کیساتھ بھگتو۔اب پوری دنيا پریشانی کے عالم مین ہے۔اسکول بند۔کالیج یونيورسٹي۔کورٹ بند ۔اسمبلیان تک بند ھین۔شادی ھال بند اجتماع بند۔مسجدون مین لوگ ججانے سے ڈر رہے ہین ۔مارکيٹ جام۔باھر سے آنے والے پریشان اپنے ہی گھر کے افراد دور بھاگتے دکھاٸی دے رہے ہین اللہ تعالی نے دنيا والوں کو بتادیا کہ جب تم ظلم کیخلاف خاموشی اختیار کروگے تو مین پھر اس طرح تمہارے اندر بیماریان بیشمار پٸدا کرونگا۔

جمعہ، 13 مارچ، 2020

17466387_771033556396508_6424882912851656704_n.mp4

مولانا قاری محمدحنیف ملتانی کسی تعرف کے محتاج ہرگز نہین آنکهوں کی بیناٸی سے محروم یہ بزرگ جب بھی بیان فرما یا کرتے یا قرآن پاک پڑہتے تھے تو اس نابین شخص کا انداز بیان اور انداز تلاوت کلام اللہ لوگوں کو رونے پر مجبور کردیتا تھا اور آج بھی نرم دل حضرات بیان سنتے ہی رو پڑتے ہین اور سخت دل والوں کے رونگٹے ابھرتے ہین۔یہ شخصيت ایک مدرسہ سے علم حاصل کرکے اس مقام پر پہنچنے مین کامیاب ھوٸی ہے جہان پر پہنچنے سے پہلے لاکھون تک دم توڑ گۓ جس طرح کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ۔۔۔

لاکهوں لہریں اٹھتی ہین ساحل کی کنارے طرف

مگر کنارے سے ملنا جس کو نصیب ھو

بدھ، 11 مارچ، 2020

کنوار بوٹی سے گھٹنوں کا علاج

گھٹنوں کے درد کا علاج کنواربوٹی سے۔


قدرت کی لاتعداد نعمتوں میں سے ایک نعمت کنواربوٹی بھی ہے کیونکہ اس کے اندر اللہ پاک نے انسانوں اور حیوانوں کے لیے شفا رکھی ہے۔دوستو یوں تو کنواربوٹی جانوروں کے علاج مین بھی بہت عرصہ دراز سے ہی استعمال مین لاٸی جاتی ہے لیکن انسانوں کی کافی اندرونی اور بیرونی امراض کے لیے بھی علاج کے طورپر استعمال کی جاتی ہے تو چہرے کے نکہار کیلیے بھی چہرے پر استعمال سے چہرے کی خوبصورتی کو چار چاند
لگادیتی ہے۔
          یہاں پر ھم ایک ایسے مرض کاذکر کرتے ہین جو کہ آجکل ایک بہت ہی بڑی تعداد لوگوں کی اس مرض میں مبتلا دکھاٸی دے رھی ہے اور وہ ہے گھٹنوں یعنی گوڈوں کا درد اور گھٹنوں کا خالی ھوجانا ۔
              جن لوگوں کے گہٹنے اٹهنے بٸٹھنے یا چلنے پھرنے میں کھٹکتے یعنی آواز کرتے ہین اور درد بھی ھوتا ہے تو انہيں چاہیے کہ وہ گھبرانے کی بجائےکنواربوٹی سےاپنا  علاج کرین اور اس مرض سے نجات پاٸین تو آٸیے اب آپکو ہم علاج کرنے کا طریقہ کار بتاتے ہین۔
تین عدد پھڑکے کنواربوٹی کے لیں اور انکی اوپر والی کھال یا چھلکا اتارلین اور اندر والےسفید گر کوچھوٹے ٹکڑے کرکے تین لیٹر تازہ اور پیوٸر دوده ایک ھانڈی یا کڑاہی مین ڈال کر کنواربوٹی کے کیے ہوۓسارے ٹکڑے ایک ساتھ دوده میں ڈال کر آگ پر رکھ دین اور دوده کو تب تک مسلسل گھماتےرہین جب تک سارے ٹکڑے دوده مین گل پگھل کر مل جاٸین اور دوده سارا کھویا بن جاۓ۔
اب اگر شگر کے مریض ھون تو وہ بغير میٹھا کیے روزانہ پچاس گرام صبح شام کھاٸین اگر شگر نہین ہے تو میٹھا کرسکتے ہین اور جب کھویا بن جاۓ تو ہلکی آنچ پر چینی ایک پاء ڈال کر گھمالین ۔
جو معدے کے مریض ہین وہ روزانہ صبح کو تین انگليوں کے برابر کنواربوٹی کاٹکڑا کاٹ  کر چھلکا اتار کر کچہ بھی کھاسکتے ہین۔

جمعہ، 6 مارچ، 2020

عورت مارچ یا میرا جسم میری مرضی

میرا جسم میری مرضی اک نیا موضوع ۔
          آجکل پاکستان کے اندر ایک نیا فتنہ پٸداکیاگیاہے جسے عورت مارچ کا نام دیا گیا ہے۔
اس ملک کے اندر عورتوں کو جو حقوق حاصل ہیں شاید ہی وہ کسی اور ملک کی عورتوں کو حاصل  ہوں دین اسلام نے عورت کا مان و مرتبہ تمام بلند درجہ پر رکہاہے اور اللہ تبارک وتعالی نے بھی جنت الفردوس کو ماں کے قدموں تلے رکھ کر بتادیا کہ عورت کا شان یہ ہے ۔اگر اللہ تعالی جنت کو باپ کے قدمون تلے رکھ دیتا تو بھی ھم کیا کرسکتے لیکن نھین ماں نے بچے کو اپنے پیٹ میں یعنی بطن میں رکھا اور تکليفین برداشت کرتی رہی اور جو تکليف بچے کی پٸداٸش کے وقت برداشت کی شاید اسی ہی وجوہات کی بناپر اللہ تعالی نے عورت کویہ مقام عطا کیا۔
یورپی ممالک کے اندر عورتيں مادر پدر آوارہ پن مین آزادانہ زندگی گذار تورہی ہیں لیکن کیاوہ اس میں خوش بھی ہین یا نھین ۔وہاں بچے اپنے باپ کے نام سے نھین جانے جاتے بلکہ اپنی ماں کے نام سے پہچانے جاتے ہین۔کیونکہ اسکی ماں کے تعلقدار  کٸی مرد دوست ہوتے ہین تو کونسے مرد کے نطفے سے بچہ پٸدا ہوا یہ معلوم نہین ہوتا یہاں پر بھی چند لبرل آنٹیان یورپی ایجنڈے پر ڈالر کے عوض زنا عام کرنے کے منصوبے پر کام کررہی ہین اور چند ناسمجھ قوم کی بیٹیون کو ورغلا بہلا کر اپنے ساتھ اس گھناٶنی سازش کا حصہ بنارہی ہین۔اور جس طرح ایک نجی ٹی۔وی چٸنل کے پروگرام مین کھلے الفاظ مین ماروی سرمد نے یہ کہا کہ میراجسم میری مرضی ۔مین جس کے چاہوں بچے پیدا کرون جس کے چاہوں نہ کرون۔اور اپنے شوہر کیساتھ تعلق چاہوں تو قاٸم کرون نہ چاہوں تو نہ کرون۔ان الفاظ کا مطلب تو سیدھا ہے کہ کھلم کھلی عیاشی کی دعوت دیناہے۔لیکن یہ ھم کبھی بھی برداشت نہین کرینگے اگر ماروی سرمد یا کسی اور کو اس طرح کامعاشرہ چاہیے تو وہ یورپ مین جاکر ھزار لوفر اور بدمعاشون سے تعلق قاٸم کرے یہاں پر بیرونی این۔جی۔اوز۔سے پیسے لیکر کام کرنا بند کرین۔مسلمانوں کی عزت کو بے آبرو کرنے کی یہ سازش ہم کامیاب ہونے نہین دینگے۔ہم عورتوں کے حقوق کے مخالف ہرگز ہرگز نہین لیکن عورتوں کے حقوق کی آڑمیں جو فحاشی پھٸلاٸی جارہی ہے یہ ہرگز قبول نہین ہے ھمین۔اگر کہین پہ عورت کیساتھ ظلم ہوا ہو تو کیا سارے معاشرے کے مرد اس ظلم کیخلاف نہین بولے آواز نہین اٹھاٸی۔جہان تک اس عورت مارچ پر مذہبی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تھالیکن بعد مین ان جماعتوں کو اعتماد دلایا گیا کہ کوٸی بھی نازیبا نعرے یا سلوگن اس مارچ مین نھین ھونگے تو اسکے بعد مذہبی جماعتوں نے بھی کہاکہ ھمین اعتراض نہین ہے۔لیکن ماروی سرمد نے لاٸیو پروگرام مین واضح کردیاکہ اصل مارچ کامقصد ہے ہی یہی کہ میراجسم میری مرضی ۔

منگل، 18 فروری، 2020

دینی مدارس اور اسکولوں کامعیار


گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت میں بھی مدارس کے اوپر شب خون مارا گیا۔
وجوہات یہ ہین۔اس حکومت مین بھی وہ ہی پرانا مٸچ فکس کیاگیاہے اب صرف کپتان چٸنج کیاگیاہے باقی پوری ٹیم پچهلے دٶر کی ہی ہے۔اس حکومت نے بھی اقتدار مین آتے ھی مدرسے کے اوپرپابندیاں لگانے کی پاليسياں بنائيں علمإ کو اور داڑھی پٹکے والوں کو انتہا پسند کرار دینے کی ناپاک کوششيں کی اور طلبہ کو حراسان کرنے کی بھی کوشش کی گٸی۔مدرسون کی تلاشی کے بہانے بناکر مدرسون کی توہين کی۔قادیانیون اور احمدیون کو خوش کرنے کےلٸے اسکولوں کے نصاب سے شعاٸراسلام کونکال دیاگیا اور اسلامیات اور عربی کے سبجیکٹ پڑہانے کے لٸے قادیانیون کو بطور عربی ٹیچر بھرتی کرنے کی بھی منظوری اس حکومت نے دی۔مدارس کے شیخ الحدیث اور خانقاھون کے بزرگوں کو اپنے ماتحت لانے کیلٸے ماہانہ وظیفے بھی مقرر کٸے گٸے۔مدارس کی رجسٹریشن کیلیے نٸین حکمت عملی کے بہانے قانون سازی کی سازش کی گٸی اور مدارس کے اندر پڑہاۓ جانے والے نصاب کو بند کرکے حکومت کی طرف سے نٸین نصاب کوپڑہانےکا زور بھی لگایا گیا۔علمإ کوبدنام کرنے کی تمام سرکاری کوششيں ناکام ھوچکی ھین۔اور اب نیا نام دیا گیاہے کہ مدرسہ قومی دھارے مین نہین ہے ۔حکمران یہ کہتے ہین کہ ہم مدارس کوقومی دھارےمین لانا چاہتے ہین تو ہم بھی برملا یہ مطالبہ حکمرانوں سے کرتے ہین کہ تم بھی اسلامی دھارے مین آجاٶ اور اسکولوں ۔کالجوں اور یونيورسٹيوں کوبہی اسلامی دھارے مین لاٶ اور اگر تم سچے ہوتو مدارس کے اندر اسکول کی تعلیم کیلیے استاد سرکاری طرف سے مقرر کرکے دو اور تمہارے اسکولوں کے اندر اسلامک سبجیکٹ وہ پڑہاتے ہین جو مدرسہ سے فارغ ہوکر آٸے ہین۔جب امتحان کاوقت آتا ہے تو تمہارے اسکولوں کے اندر کاپی کی مشینین لگی ھوتی ہین اور جب طلبہ ڈگری لیتے ہین تو روزگار نہین ملتا انہین ۔نوکری کا تو اسکیل کی بنیاد پر ریٹ لگتاہے۔کٸی انجنیٸروں اور ڈاکٹروں نے تو جاب نہ ملنے پر اپنی  زندگی کو موت کے حوالے کردیا۔کبھی ہاۓوے بلاک تو کبھی وزیراعلی ھاٶس کے سامنے احتجاج اور پہر لاٹھی چارج شیلنگ ربڑکی گولياں آنسو گٸس جیسے یہ مقبوضہ کشمیر ہے۔لٸکن اس کے برعکس اگر دیکھاجاۓ تو کبھی بھی کسی مدرسے کے استاد نے سرکار کیخلاف احتجاج نہین کیا کہ تنخواہ تین ھزار ہے گذارا نہین ہوتا ۔یا یہ کہ سرکاری نوکری نہین ہے ۔نہ ہی کبھی مدرسے کے طلبہ نے احتجاج کیاکہ ہمین نوکری دو نہ کبھی خودکشی کی نہ کبھی مدرسےکے اندر اسلحہ اٹھاکر لڑائی کی نہ کبھی مایوسی کو اپنے اردگرد ٹہھرنےدیا۔جب کسی کابچہ گھر مین روتاہے تو بہیجتے ہین مولوی کےپاس۔کسی کو دعائيں کرانی ھون تو اللہ والے عالم کےپاس جاتاہے جاٸز ناجائز حرام حلال پوچھناھوتوعالم کےپاس بھاگتےہین۔کبھی کسی نے غٸرمسلم پروفيسر ۔انجنیٸر یا ڈاکٹر سے نکاح یا نماز جنازہ پڑھاٸی ہے. نہین ۔کیون غٸر مسلم ھے تو کیا ہوا تعلیم تو بہت زیادہ ہے اسکےپاس۔اب آٸیگامولوی کے پاس کہ مٶلاناصاحب ابا وفات پاگیاہے نماز جنازہ تسان پڑھاٶ  ۔تمہارے کالجز اور یونيورسٹيوں مین مخلوط تعلیم روز مجرے ڈانسز اسلحہ لڑائی اور جھگڑے۔چرس ہیروٸن آفیم شیشہ حقہ سلفی شراب زنا اور آخری فنا۔اور مدارس مین قرآن و حدیث کی تعلیم نماز زکر اللہ پاک کا اور اس کے آخری رسول حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہر بھی کہتے ہو کہ مدرسہ قومی دہارے مین نھین ھے جب تم شراب کے نشے مین دہت ھوکر عیاشی کرتے ہو راتون کے اس پہر مین یہ طلبہ ۔علمإ اور صلحہ پاکستان اور پاکستانيوں سمیت پوری امت مسلمہ کےلیے اٹھ کر نماز ادا کرکے اللہ سے اپنی رحمت کا واسطہ دے کر امن امان اور ملک و ملت کی حفاظت مانگتے ہین اور استحکام معیشت مانگتے ہین۔جب ملک پر کوٸی کڑا وقت آجاتا ہے تو تم اپنے ہی ملکی اداروں کو بدنام کرتے ہو تب یہ ہی علمإ ملک کی حفاظت کے لیے دعائيں مانگنے کیساتھ حفاظت کرنےکااعلان بھی کرتےہین۔پھر بھی تم کہتے ہو کہ یہ قومی دہارے مین نہین ھین۔

منگل، 11 فروری، 2020

The destruction of Education & Sindh Government.


 Who is responsible for the destruction of education within Sindh province? Is the provincial government awaiting where the Aladdin lamp will bring anybody and the knowledge will shine within the entire province or that there are only schools open for further education.  Whether or not this has any meaning to the Sindh government. From Karachi to Kashmore, all the schools in Sindh those are built in the middle of the forest, and only for the convenience and rigging of the polling station, they do not come to teach anybody, nor do they teach students there or school furniture every year.  And other activities are funded by the government. Besides, most schools do not have electricity. There is no drinking water facility or books for children.every year from the government For many days after moving, he not only got the children's books but also stayed in the offices of the officers who  They are given for distribution - and three or four children get the same book. There are still a large number of schools that do not open year-round, nor are they visited by any provincial or district education officer.  Some time ago, when the judges visited schools and raided the names of some ignorant and ignorant people who were not even aware that they were teachers or headmasters.  Zubun Hal schools were also opened which never opened up to Zabun hal till now, but every month, tens of millions of tens of billions of teachers are being paid.  There are ten teachers in a school which never opened and the only three teacher in a school  where demands ten teachers who are teaching three and they do not open once a year in the school. Twelve teachers in a school take salaries.  Some teachers are on the duty of Children of officers older than themselves perform duty to leave school and take home, and salaries come out of the government's treasury at ATMs on the first date of each month.  Many public schools, colleges are still in place and yet the Sindh government is watching it all as silent spectators.  Every senior officer is taking bribes from his subordinates if the time for the exam comes, the copier also comes with his teacher. The enrollment fee is taken by the students. The teachers foolish the students by slipping up their own personal bank account.  It is supposed to be submitted to the government account. When supervisors come to take the exams, they are also confined to the office and have to return home after drinking the Cup of tea. There are a large number of schools that do not run - no toilets, no electricity, no fans, no trees - no garden.  All the top officers of the Education Department are somehow the MPAs or the MNAs. In this situation, who is not the provincial government responsible for the destruction of education. We earnestly request the Chief Minister of Sindh and  From the Federal Ministry of Education that all the institutions for regular education in schools and colleges are regulated by the children of Sindh.  collect data for those schools have closed over the years and where a greater need for open new schools .school teachers who are presumed proper take Action on those. While there are still a large number of teachers who do not even know how to read, the government should take the time to take effective measures against such illiterate and divergent elements, otherwise the degree holders within the province will be shrinking but even harder to find.  Will get

سندہ کے اندر تعلیمی ادارے دن بدن فیل اور وجوہات کیاہین ذرا پڑہٸے

سندہ حکومت اور تعلیم کی تباھی۔

سندہ صوبے کے اندر جو تعلیم کی تباہی کی گٸی ہے اسکا ذمہدار آخر کون ہے کیاسندہ کی صوبائی حکومت اس انتظار میں ہےکہ کہیں سے الادین کاچراغ کوٸی لاٸیگااور سارے صوبے کے اندر علم کی روشنی ھوجاٸگی یا یہ کہ یہاں پر صرف اسکول کہولنے ہیں باقی تعلیم ہو یا نہ اس سے سندہ حکومت کو کوٸی مطلب نہیں ۔
کراچی سے لیکر کشمور تک سندہ کےاندر تمام وہ اسکول جو جنگلات کے بیچ میں بنائے گٸے ہیں وہ صرف اور صرف پولنگ اسٹیشن کی سہولت اور دھاندلی کیلیے بنائے گۓہین نہ تووہان پرکوٸی ٹیچرتعلیم دینے آتا ہے اور نہ وہاں پر طلبہ پڑہتے ہیں اور ہرسال اسکول کے فرنيچر اور دوسرے کاموں کی مد میں حکومت سے فنڈ وصول کٸےجاتے ہین۔اسکے علاوہ اکثر اسکولوں مین نہ تو بجلی ہے۔نہ پینے کے پانی کی سہولت اور نہ بچوں کے پاس کتابيں سرکار کی طرف سے ہر سال بچوں کے لیے کتابيں تو آتی ہین لیکن کلاسز چلنے کے بعد بہت دنوں تک وہ کتابيں بچوں کو ملتی ہی نہین بلکہ ان افسران کے دفترون مین پڑی رہتی ہین جنہيں بانٹنے کیلیے دی جاتی ہین۔اور تین یا چار بچوں کو ایک ہی کتاب ملتی ہے ۔کثير تعداد ایسے اسکولوں کی اب بھی موجود ہے جوسال مین نہ کبهی کھلتے ہین نہ وہان پر کوٸی صوبائی یا ڈسٹرکٹ ایجوکيشن آفیسر نے کبهی بھی وزٹ کیا ہو۔کچھ عرصہ پہلے جب جج صاحبان نے اسکولوں کی وزٹ کی اور چھاپے مارے تھے تو اس وقت کچھ ایسے انپڑہ اور جاھل لوگوں کے نام منظر عام پر آگۓتہے جن کا کسی کو بھی علم نھین تھا کہ یہ بھی ٹیچر ہین یا ہیڈماسٹر ہین تو تب کچھ ایسے زبون حال اسکول بھی کھل گۓ تھے جو بننے سے لیکر زبون حالی تک کبھی نہین کھلےتھے لیکن ھر ماہ کروڑوں نہین اربوں روپے استاد تنخواہین لے رہے ہین۔اور جہان پر دس استادون کی ضرورت ہے وہان پر تین پڑھا رہے ہین اور جو اسکول سال مین ایک مرتبہ بھی نہین کھلتے اس اسکول مین بارہ استاد تنخواہ لیتے ہین ۔کافی تعداد ایسے استادون کی ہے جو اپنے علاقے کےوڈیرون کی نوکری کرتےہین تو کچھ اپنے سے بڑے افسران کے بچے سکول مین چھوڑنے اور گھر لے جانے کی ڈیوٹی انجام دیتے ہین اور تنخواہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ پر حکومت کے خزانے سے اے ٹی ایم کے ذریعے نکالنے آجاتےہین۔آج بھی دیہات مین تو تعلیم زیرو پر ہے لیکن شہروں مین بہی سرکاری اسکولوں ۔کالجوں کابرا حال ہے اور پہر بھی سندہ حکومت خاموش تماشائيوں کی طرح یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے ۔
جب سپرواٸیزر امتحان لینے آتے ہین تو وہ بھی آفس تک ہی محدود ہوتے ہین اور چاۓ پی کر واپس روانگی اختیارکرتےہین۔بڑی تعداد ایسے اسکولوں کی ہے جن مین نہ چٶدیواری ۔نہ ٹواٸلٹ۔نہ بجلی ۔نہ پنکھے۔نہ درخت ۔نہ ہی گارڈن اب ایجوکيشن ڈپارٹمینٹ کے تمام بالا افسران کسی نہ کسی ایم پی اے۔یا ایم این اے۔کے اسر رسوخ والے  ہوتے ہین اس صورتحال مین کیا تعلیم کی تباہی کا ذمہدار صوبائی حکومت نہین تو کون ہے ۔ہم معدبانہ گذارش کرتے ہین سندہ کے وزیراعلی سے اور وفاقی وزارت تعلیم سے کہ سندہ کے بچوں پر نظر کرم فرمائین اور اسکولوں اور کالجوں مین باقاعدہ تعلیم کے لیے تمام اداروں کو ریگیولر کرین۔اور جو اسکول برسوں سے بند پڑے ہین انہین ختم کرکے جہان زیادہ ضرورت ہے وہان نٸین اسکول کھولین۔اور جو اساتذہ پراپر ڈیوٹی نہین کررہے ان پر ایکشن لین۔
جبکہ کافی تعداد مین آج بھی ایسے استاد موجود ہین جو خود بھی پڑھنا لکھنا نہین جانتے حکومت وقت کو چاہيے کہ ایسے انپڑہ اور گوار عناصر کے خلاف انتہائی مٶثر اقدام لے ورنہ صوبے کے اندر ڈگری ھولڈر تو سٸنکڑون لوگ ہونگے لٸکن قابليت ڈھونڈنے سے بھی بہ مشکل ملے گی۔